حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آستن قدس رضوی کے غیر ملکی زائروں کے ادارے اور آستان قدس رضوی کے علمی و ثقافتی ادارے کے بین الاقوامی شعبے کے تعاون سے مجلس فاتحہ خوانی ، حرم مقدس کے دار المرحمہ رواق میں منعقد ہوئي جس میں آستان قدس رضوی کے نائب متولی مصطفی خاکسار قہرودی اور اس مقدس ٹرسٹ کے دیگر عہدیداروں اور انڈونیشیا کے کچھ علماء و فضلاء نے شرکت کی ۔
مجلس فاتحہ خوانی کا آغاز قرآن مجید کی تلاوت سے کیا گیا اور زیارت رجبیہ پڑھے جانے کے بعد استاد جلال الدین رحمت کے بیٹے کا پیغام پڑھا گيا جس میں انہوں نے اس پروگرام کا انعقاد کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا تھا ۔
انڈونیشیا میں رہبر انقلاب اسلامی کے نمائندے حجت الاسلام عبد المجید حکیم الہی نے بھی پروگرام میں تقریر کی جس میں انہوں نے جنوب مشرقی ایشیا خاص طور پر انڈونیشیا میں اسلام کی آمد، ڈاکٹر جلال الدین رحمت کی سرگرمیوں اور اسی طرح انڈویشیا نیز جنوب مشرقی ایشیا میں اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کی ترویج میں ان کے کردار پر روشنی ڈالی ۔
انہوں نے کہا کہ ملایا کے نام سے معروف جنوب مشرقی ایشیا کا یہ علاقہ، اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے اور اسی لئے دنیا کے بہت سے ممالک اس علاقے پر خاص توجہ دے رہے ہیں ، اس علاقے اور مغربی ایشیا کے درمیان گزشتہ چار ہزار سال سے تجارتی تعلقات رہے ہيں اور تاجروں کی وجہ سے ایرانیوں اور عربوں کا اس علاقے سے رابطہ ہوا ۔
انہوں نے بتایا کہ تیسری ہجری قمری میں، اسلام ملایا جزائر پہنچا اور جو اسلام اس علاقے میں آيا تھا اس کا سر چشمہ تین جہتوں سے شیعی تھا ۔ ایک تو یہ کہ اس علاقے میں آنے والے اکثر وہ شیعہ مسلمان تھے جو بنی امیہ اور بنی عباس کے مظالم سے تنگ آ چکے تھے ۔
انہوں نے کہا کہ ملایا علاقے میں اسلام کی آمد کا دوسرا طریقہ ایرانی تاجر تھے جو تجارتی امور کے ساتھ ہی ساتھ ثقافتی میدان میں بھی سرگرم تھے اور اپنے ساتھ اسلام کی تبلیغ کے لئے مبلغین کو بھی لے جاتے تھے ۔
انڈونیشا میں رہبر انقلاب اسلامی کے نمائندے نے مزید کہا کہ ملایا علاقے پر شیعہ مسلمانوں نے تقریبا تین سو سال حکومت کی ہے لیکن ہالینڈ، پرتغال اور برطانیہ کی جانب سے اس علاقے پر قبضے کے بعد ان پر بے حد مظالم کئے گئے اور وہ تقیہ پر مجبور ہو گئے ۔انہوں نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں اسلامی انقلاب اور امام خمینی کے بین الاقوامی اثرات کا جائزہ لیا ۔
حجت الاسلام عبد المجید حکیم الہی نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر اسلامی انقلاب کا سب سے بڑا اثر یہ رہا کہ مختلف معاشروں میں مغرب زدگی یا مغربی کلچر پھیلنے کے بجائے اسلامی نظریات رائج ہوئے اور معاشروں کے افراد روحانیت اور معنویت کی جانب راغب ہوئے ۔
انہوں نے مرحوم جلال الدین رحمت کی شخصیت اور سرگرمیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ انہوں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی تھی جس کے بعد وہ اسلامی انقلاب سے متاثر ہوئے اور اپنے ایرانی احباب کی مدد سے شیعہ مسلک اختیار کیا اور ایک نئي تحریک کی بنیاد ڈالی ۔
انڈونیشیا میں رہبر انقلاب اسلامی کے نمائندے حجت الاسلام عبد المجید حکیم الہی نے کہا کہ جلال الدین رحمت انڈونیشیا میں امام خمینی، شہید مطہری اور شہید صدر کے افکار و نظریات کی تعلیم دیتے تھے اور انہوں نے ان نظریات کی اس طرح سے ترویج کی کہ اس ملک کے نوجوانوں کا بڑا طبقہ اس سے جڑ گیا اور اس طرح سے ایک نئي نظریاتی تحریک نے جنم لیا ۔
انہوں نے کہا کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل، ملایا نامی اس علاقے میں شیعہ مسلمانوں کی تعداد سو تک بھی نہيں پہنچتی تھی لیکن امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے نظریات کی بنیاد پر مرحوم جلال الدین رحمت کی سرگرمیوں کی وجہ سے اس وقت پچیس لاکھ سے چالیس لاکھ تک شیعہ مسلمان اس علاقے میں موجود ہیں ۔
حجت الاسلام عبد المجید حکیم الہی نے اسی طرح ملیشیا میں شہید مطہری فاؤنڈیشن اور پرائمری اورمڈل اسکولوں کے قیام ، شہید مطہری ، شہید صدر کی تمام کتب اور نہج البلاغہ کےترجمہ اور بیس سے زائد کتب کی تالیف کو ڈاکٹر جلال الدین رحمت وہ جملہ خدمات قرار دیا جن انہوں نے انجام دیں۔
انہوں نے اسی طرح مرحوم جلال الدین رحمت کی سرگرمیوں کی بنیادوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ شیعہ و سنی مسلک کے اشترکات پر تاکید، مسلمانوں کی معاشی صورت حال میں بہتری، نیا سماجی طرز زندگی، موضوعاتی سیمیناروں کا انعقاد، مذہبی پروگرام اور مقدس مقامات کی زیارت کے لئے لوگوں کی ترغیب ، جنوب مشرقی ملایا علاقے میں شیعہ مسلمانوں کا تعارف ان کی جانب سے کی جانے والی کاوشوں میں شامل ہے ۔